نئی دہلی، 4؍ ستمبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا )حیدرآباد کے بعد مہاراشٹر اور بہار کے سیاسی دنگل میں اتر چکی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم )اب دہلی میں انتخابی میدان میں اترنے کی تیاری میں لگی ہے۔اس نے اگلے سال ہونے والے دہلی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حیدرآباد سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی قیادت والی اے آئی ایم آئی ایم نے ایم سی ڈی الیکشن کو ذہن میں رکھتے ہوئے حال ہی میں اپنی ریاستی یونٹ کی تشکیل کی ہے اور اب نچلی سطح پر تنظیم بنانے کی تیاری میں ہے۔اویسی نے اپنی پارٹی کی دہلی اکائی کا صدر عام آدمی پارٹی کی اقلیتی شاخ کے سابق سربراہ عرفان اللہ خان کو بنایا ہے۔پارٹی نے اس مہینہ کے آخر میں اویسی کی ایک ریلی کے انعقاد کی بھی منصوبہ بندی کی ہے۔دہلی میں گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات کے بعد آپ میں تقریبا حاشیہ پر کر دئیے گئے عرفان اللہ خان نے حال ہی میں اے آئی ایم آئی ایم کا دامن تھاما۔ان کا کہنا ہے کہ اے آئی ایم اآئی ایم فی الحال تنظیم کی توسیع میں زور شور سے لگی ہے اور اگلے سال ہونے والے ایم سی ڈی الیکشن میں وہ پوری طاقت سے لڑے گی۔خان نے میڈیا کو بتایا کہ آج کے دور میں ملک کے مسلمان، محروم طبقات اور دوسرے دبے کچلے لوگ اے آئی ایم آئی ایم کو ایک متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ہم انہیں طبقوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دہلی میں اپنی پارٹی کی توسیع کر رہے ہیں، ہماری کوشش یہ ہے کہ ایم سی ڈی الیکشن سے پہلے بوتھ کی سطح پر ہماری تنظیم تیار ہو جائے کیونکہ پارٹی نے میونسپل کارپوریشن کا الیکشن پوری قوت سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ اے آئی ایم آئی ایم مہاراشٹر کی طرح دہلی میں بھی صرف مسلم اکثریتی علاقوں میں انتخابات لڑے گی ، عرفان اللہ خان نے کہاکہ ہم صرف مسلم اکثریتی علاقوں میں انتخابات نہیں لڑیں گے۔دہلی میں 12مخصوص اسمبلی حلقے ہیں اور ان حلقوں پر بھی ہماری نظر ہے کیونکہ ہماری کوشش اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دلتوں اور دوسرے محروم طبقات کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ہے۔
کبھی حیدرآباد اور آس پاس کے علاقوں تک سمٹی رہنے والی اے آئی ایم آئی ایم 2014کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں اتری اور دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ اس نے کئی سیٹوں پر ہزاروں ووٹ حاصل کئے۔مانا جارہا ہے کہ اویسی کی پارٹی کی وجہ سے ریاست میں کانگریس اور این سی پی جیسی پارٹیوں کو نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ اس سے پہلے تک مسلم رائے دہندگان کا بڑا حصہ ان دونوں پارٹیوں کی حمایت میں ووٹ ڈالتا آرہا تھا۔بعد میں اویسی کی پارٹی نے بہار اسمبلی انتخابات میں کچھ سیٹوں پر قسمت آزمائی، لیکن وہ مہاراشٹر والی کامیابی نہیں د و ہراسکی ۔اب وہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بھی اترنے کی تیاری میں ہے۔عرفان اللہ خان نے اس الزام کو بھی خارج کردیا کہ اویسی اور ان کی پارٹی ایک خاص کمیونٹی کی سیاست کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ عجیب بات ہے، ہماری پارٹی مسلم کمیونٹی اور دوسری محروم کمیونٹی کے حقوق کی بات کرتی ہے ،تو اس میں فرقہ پرستی کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے بارے میں کچھ نام نہاد سیکولر پارٹیاں پروپیگنڈے کرتی ہیں جو اب تک مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھتی آئی ہیں اور اب ان کو اپنی بنیاد کھسکنے کا ڈر ستا رہا ہے۔